نئی دہلی(ہند نیوز بیورو)جمعیة علماءہند کے زیر اہتمام دہلی کے تالکٹورہ اسٹیڈیم میں منعقد امن و اتحاد کانفرنس میں ملک کے معروف و مشہور دانشوران و مذہبی لیڈران نے شرکت کی۔ جمعیة علماءہند (الف) کے قومی صدر مولانا ارشد مدنی نے اس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مظلوم بن کر مر جانا ظالم بن کر جینے سے زیادہ بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج دیش میں مسلمانوں کے خلاف مختلف آوازیں آتی رہتی ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اس ملک میں مسلمان ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیں گے۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ بھارت اور امریکہ کے مسلمانوں میں بڑا فرق یہ ہے کہ آج جو مسلمان رہ رہے ہیں وہ امریکہ میں روزگار یا کاروبار کے مقصد سے گئے تھے لیکن بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ سے یہیں کے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں ایسا ماحول رہا ہے کہ ہر چھوٹا اپنے بڑوں کو تاو کہہ کر بلاتا تھا۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ دیش کا ماحول آج پھر سے ویسا ہو جائے۔
کبھی اپنے مقصد اور مشن سے نہیں بھٹکی جمعیة
مولانا ارشد مدنی نے کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمعیة علماءہند کی سو سالہ طویل تاریخ ہے انہوں نے کہا کہ جمعیة علماءہند آزادی سے پہلے سے اپنے اصولوں اور مقاصد پر قائم ہے۔ جمعیة علماءہند دیش میں امن اور شانتی و اتحاد کے لئے کام کرتی رہی ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے مزید کہا کہ ملک کی آزادی سے پہلے ملک میں ایک ایسا طبقہ ہوا تھا جس نے ملک میں فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن جمعیة علماءہند اس وقت بھی اپنے امن کے نظریہ پر قائم رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی ملک میں جمعیة علماءہند کی ٹوپیاں اچھالی گئیں لیکن اس کے باوجود اس تنظیم نے اپنے نظریے سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہم آج بھی فرقہ واریت کے خلاف ہیں حالات چاہے کچھ بھی ہوں ہم اپنے راستے سے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقلیتوں کے ساتھ جو مظالم ہو رہے ہیں وہ آج سے نہیں ہیں بلکہ 1957ءمیں مدھیہ پردیش کے جبل پور میں پہلا فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا اور تبھی سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا اور آج تک نہیں رک پایا ہے۔ لیکن ہم نے بار بار کہا کہ مسلمان صبر کریں۔
میں نے لکھا تھا سونیا گاندھی کو خط
مولانا ارشد مدنی نے کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب آتنک واد کے الزام میںمسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیلمیں ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا تب جمعیة علماءہند نے ان بے قصور مسلمانوں کی لڑائی لڑی اور آج بھی لڑ رہی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہم سمجھتے تھے کہ ان نوجوانوں کو صرف اور صرف اس لئے نشانہ بنایا گیا ہے کہ کیوںں کہ مشینرمیں تعصب پرست افسران کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پر ہماری دلیل یہ ہے کہ جب یہ لوگ نچلی عدالت سے ہائی کورٹ اور ہائی کورٹ سےسپریم کورٹ پہنچتے ہیں توباعزت بری ہو جاتے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اس سے ظاہر ہو گیا کہ ان لوگوں کو فرقہ پرست ذہنیت کے لوگوں نے پھنسایا ہے اور پورے ملک میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جب یہ سب چل رہا تھا اس وقت میں نے کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو خط لکھا تھا اور کہا تھا کہ آپ کے وزیر داخلہ شیو راج پاٹل نے جو کام کیا ہے وہ فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والی پارٹیاں 60 سالوں میں نہیں کر پائیں۔ وزیر داخلہ کے کام سے لگتا ہے کہ پوری قوم ہی دہشت گرد ہے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ دیش کی آزادی کی لڑائی میں ہم نے کانگرےس سے آگے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں، پیچھے رہ کرنہیں۔